۔ کنویں کے اندر نئے جہان کی سیر:انہوں نے ہمارے سامنے اونچی اونچی آواز میں یہی وظیفہ پڑھا‘ تھوڑی ہی دیر میں آگے سے پتھر ہٹتے چلے گئے‘ جیسے کہ پتھر یہاں تھے ہی نہیں ایک لکڑی کا خوبصورت دروازہ نکلا، وہ کھلا اور اس کے کھلتے ہی ایک ٹھنڈی ہوا آئی‘ جیسے کہ کوئی بہار اور باغ کی ہوا اور خوشبودار ہوا آئے۔ وہاں سیڑھیاں نمودار ہوئی‘ ہم ان سیڑھیوں سے نیچے اترتے چلے گئے کوئی چالیس سے زیادہ سیڑھیاں تھیں جو اس کنویں سے نیچے جارہی تھیں‘ ہم سیڑھیاں اترتے اترے ایک انوکھے جہاں میں پہنچ گئے۔ وہ بزرگ ہمیں مسلسل گائیڈ کررہے تھے اور ہمارے رہبر تھے۔ فرمانےلگے دیکھو: یہ زمین کے نیچے کا جہان ہے اور اس جہان کو اللہ پاک نے بنایا ہے ‘یہاں ایک مخلوق رہتی ہے جس مخلوق کا تعلق انسانیت کی خدمت سے ہے‘ یہ وہ مخلوق ہے جو انسانوں کیلئے مسلسل اپنی خدمات فراہم کرتی رہتی ہے۔ ان کے دل میں ہمدردی ہے‘ ان کے دل میں خلوص ہے ان کےدل میں محبت ہے‘ یہ بغض، کینہ، حسد اور کسی نفرت سے پاک ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جو ہروقت اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ یہ فرشتے نہیں ہیں‘ یہ انسان ہیں‘ نہ جنات لیکن کوئی اور مخلوق ہے یہ جہاں بہت وسیع ہے‘ ان کے جہان میں کھانا بھی ہے‘ پینا بھی ہے‘ شادیاں بھی ہیں‘ غم بھی ہیں‘ خوشیاں بھی ہیں اور اس مخلوقات کا تعلق جنات سے ملتا جلتا ہے‘ یہ ہواؤں میں اڑتےہیں‘ فضاؤںمیں تیرتے ہیں۔ اپنی شکل تبدیل کرلیتے ہیں‘ ان کو اختیار ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو یہی ذکر کرتے ہیں جو میں ذکر کررہا ہوں ۔بس ان کی عبادت یہی ہے اور ان کی تسبیح یہی ہے ان کے راستے ہمیشہ کنوؤں ہوتے ہیں جو بھی پرانا قدیم کنواں ہوگا اور اگر کوئی شخص جس پر اس کے ذکر کا کمال کھل گیا ہو۔ وہ کنویں میں جاکر (کنواں قدیم ہونا ضروری ہے ) یہ ذکر پڑھے گا تو ضرور اس کیلئے دروازہ کھلے گا اور وہ اس جہان کی سیر کرے گا۔ ہم آگے گئے تو انہوں نے ایک درخت سے خوبصورت اور بہت رسیلہ اور بہت رسیلہ پھل اتارا اور اس پھل کو بہت زیادہ خوبصورتی میں پایا۔ انہوں نے ہمیں کھانے کو دیا جب ہم نے اس پھل کو کھایا تو حیران ہوگئے کہ اس پھل کے اندر کیا طاقت تھی‘ اس پھل میں کیا تاثیر تھی اور اس میں کیاچاشنی تھی۔ جی میںآیا کہ اور پھل دیں ان بزرگوں نے ہمیں اور پھل دئیے۔ فرمانے لگے یہ تو کچھ بھی ہم آپ کو اور چیز دکھاتا ہوں۔ میں ہفتے میں چند بار اس کی سیر کرنے ضرور آتا ہوں کیونکہ یہ ذکر جلالی ہے اور اس کے جلال کیلئے مجھے یہاں کے پھل کھانے اور یہاں کے چشموں کا پانی پینا ضروری ہوتا ہے اور میں آکر یہاں کے پھل بھی کھاتا ہوں اور یہاں کے چشموں کا پانی بھی پیتا ہوں۔ اس کے بعد وہ ہمیں لے کر ایک اور درخت کی طرف گئے‘ اس کی شکل کھجور کی طرح تھی لیکن ذائقہ مختلف تھا اور طرح طرح کا پھلوں کا ذائقہ اس میں ملتا تھا ہر دفعہ چبانے سے اس کا ذائقہ بدل جاتا اور پہلے کا ذائقہ بھول جاتے وہ پھل ایک بہت بہت زیادہ لذیذ تھے اور ان کے اندر چاشنی بہت زیادہ تھی‘ ذائقہ بہت زیادہ تھی ان پھلوں میں مٹھاس تھی۔ مختلف جگہوں پر لے کر ہمیں چلتے رہے ہم جہان چلتے رہتے میری حیرت کی انتہا یہ رہی کہ جہان ہے لیکن یہاں کوئی مخلوق نہیں۔ میری حیرت کو دیکھ کر مجھ سے فرمانے لگے کہ میں نے کہا تھا کہ یہاں کی مخلوق جنات سے ملتی جلتی ہے اور ایسی مخلوق ہے جو انسانوں کو بھی نظر نہیں لیکن جنات کو بھی نظر نہیں آتی یہ نہ سمجھنا ہم انہیں نہیں دیکھ رہے اور وہ تو ہمیں مستقل دیکھ رہے ہیں اور ہم ان کی نظروں میں ہے انہوں نے بہت دیر ہمیں اس جہان کی سیر کروائی اس کے بعد واپس ہوئے۔ سیڑھیاں چڑھے‘ کنویں کے اندر آئے ہمارے واپس آتے ہی کنویں کا دروازہ واپس وہی پتھر وہی اینٹیں اور واپس وہی نظام۔ باہر آئے انہوں نے ہمیں تھپکی دی‘ دعائیں دیں اور واپس چلے گئے۔ یہ تو تھی موتی مسجد کے اس ٹیلے کی ابتدا پھر میں نے مسلسل یہاں مصلیٰ پڑھنا شروع کردیا اور مستقل مصلیٰ پڑھتے پڑھتے مجھے آج زندگی گزر گئی ہے یہاں مصلیٰ پڑھتے ہوئے میں نے ہمیشہ یہاں انورات دیکھی‘ کمالات دیکھیں کیفیات دیکھیںاور قرآن کی یہاں تاثیر دیکھی یہ مصلیٰ پڑھتے ہوئے میری زندگی گزری میں نے آج تک مصلیٰ پڑھتے ہوئے جو بھی دل کی مراد مانگی‘ جو بھی دل کی خواہش چاہی کبھی
مایوسی نہیں ہمیشہ حاصل ہوا۔ جنات کا انوکھا لاؤڈ سپیکر:میں ان کی باتیں سن رہا تھا تھوری ہی دیر میں سارے جنات جمع ہوگئے۔ میں نے ان کے سامنے کچھ دیر کچھ قرآن کے کمالات کے بارے میں بات کی۔ میری بات کا ان پر بہت اثر ہوا۔ زارو قطار رو رہے تھے‘ علیحدہ پردہ میں خواتین بھی بیٹھی تھی اور مرد بھی تھے وہ لاکھوں کے قریب تھے۔ موتی مسجد ساری بھری ہوئی تھی اور موتی مسجد سے باہر کا سارا حصہ بھی بھرا ہوا تھا‘ وہاں کا جنات کا ایک انوکھا لاؤد سپیکر ہوتا ہے اسے میں لاؤڈ سپیکر کہوں یا کوئی اور نام دوں۔ وہ مستقل ایسی آواز نکالتا ہے جو میلوں تک آواز پہنچاتا ہے لیکن اس کی آواز صرف جنات سن سکتے ہیں اور کوئی نہیں سن سکتا۔ اچانک میرے دل میں دوران تقریر ہی ایک بات پیدا ہوئی۔ میں نے حافظ صاحب سے پوچھا جنہوں نے قرآن کا مصلیٰ سنایا تھا کیا حافظ صاحب کیا آپ خود بھی کبھی وہاں گئے ہیں یعنی اس کنویں میں۔ فرمانے لگے ہاں میں کئی بار گیاہوں۔ میں نے کہا مجھے بھی لے چلیں۔ کہنے لگے ٹھیک دعا کے بعد آپ آپ کر لے چلوں گا۔ تھوڑی دیر تقریر کے بعد میں نے دعا کی۔ دعا کے بعد سادہ سے کھانے لائے گئے اور ایک شخص سے ملاقات کرائی۔موتی مسجد کے خادم جن سے جذباتی ملاقات: کہنےلگے یہ وہ شخص ہے جو صدیوں سے موتی مسجد
کی خدمت کرتا ہے اور جھاڑو دیتا ہے‘ نہایت غریب شخص ہے لیکن اسے موتی مسجد کی خدمت سے بہت پیار ہے۔ میں نے اٹھ کر کھڑے ہوکر اسے گلے لگایا کیونکہ غریب کو گلے سے لگانے سے مجھے بہت سکون ملتا ہے۔ میں نے اس کا حال احوال پوچھا کہنے لگا: مجھے موتی مسجد سے بہت انس ہے‘ پیار ہے‘ محبت ہے۔ میں موتی مسجد کو بہت زیادہ صاف ستھرا رکھتا ہوں‘ اب آپ کی وجہ سے یہاں (یعنی علامہ لاہوتی پراسراری کی وجہ سے) بہت انسانوں کی رونق ہوگئی ہے۔ آج سے چند سال پہلے جب آپ نے موتی مسجد کو متعارف نہیں کروایا تھا یہاں سالہا سال کوئی انسان نہیں آتا تھا‘ بالکل ویرانی تھی لیکن موتی مسجد کبھی ویران نہیں ہوئی۔ موتی مسجد ہمیشہ جنات سے آباد رہے۔ اولیاء صالحین نیک جنات ہمیشہ موتی مسجد کو اپنی سر آنکھوں کا تارا بنائے رکھتے ہیں اور میں موتی مسجد کو بہت زیادہ صاف ستھرا رکھتا ہوں‘ ہمیشہ کوشاں رہتا ہوں۔موتی مسجد میں آنے والوں کو نقصان: مجھے اس وقت تکلیف ہوتی تھی جب موتی مسجد میں کوئی ناپاک شخص آتا تھا یا کفار آتے تھے اور یہاں آکر تصویریں کھینچتے تھے۔ میں نے کئی ناپاک شخص کو تکالیف دی۔ ایک ناپاک شخص آیا میں نے اس کی گردن توڑ دی‘ میں نے اس کی گردن توڑ دی‘ بظاہر اس کا حادثہ ہوا اور وہ مرگیا۔ ایک ناپاک شخص آیا اس نے موتی مسجد کی قدر دانی نہیں کی۔ میں نے اس کی بازو توڑ دی۔ ایک ناپاک شخص آیا میں نے اس کو دل کے مرض میںمبتلا کردیا۔ ایک ناپاک شخص آیا میں نے اس کو پرانی آنکھوں کی ٹی بی میں مبتلا کردیا۔ ایک ناپاک شخص آیا اس نے ناقدری کی میں نے اس کو دل، اعصابی، ذہنی اور نظر کی بیماریوں میں مبتلا کردیا۔ موتی مسجد کا وہ خادم کہہ رہا تھا کہ جس دور میں یہاں انسانوں کی مسجد آباد نہیں تھی کچھ لوگ تنہائی کی وجہ سے یہاں گناہ کے جذبے سے آتے تھے ۔ میں نے ہراس شخص کوعبرت ناک سزا دی‘ کسی کو رزق کےذریعے، کسی کوصحت کے ذریعے، گھریلو مشکلات اور مسائل کے ذریعے اور کسی کو حادثات کے ذریعے، جنہوں نے بھی یہاں گندگی پھیلائی اور گناہ کیا۔ یہ موتی مسجد نہیں مشکل کشاء ہے: وہ جذباتی ہوگیا اور اس کے جذبات سے آنسو بھی نکلنا شروع ہوگئے۔ کہنے لگا مجھے اس مسجد سے بہت پیار ہے‘ میں نے اپنی آنکھوں سے بڑے بڑے اولیاء جنات کو اس مسجد سے پاتے دیکھا ہے‘ یہ موتی مسجد نہیں یہ مشکلات کشاء اور حاجت روا مسجد ہے۔ اس میں مشکل کشائیاں ہوتی ہیں‘ اس میں حاجت روائیاں ہوتی ہیں۔ اس میں مسائل حل ہوتے ہیں‘ اس میں الجھنیں دور ہوتی ہیں۔ پھرکہنے لگے (موتی مسجد کے خادم جن جو بہت بوڑھے تھے اور ان کی سفید لمبی ڈاڑھی تھی) میں یہاں ہرآنے والے مرد اور عورت کو سر پر ہاتھ رکھ کر برکت کی دعا دیتا ہوں‘ کوئی بھی یہاں مرد‘ عورت‘ بچہ‘ بوڑھا جوان آیا ہو مجھے خوشی ہوتی ہے کہ مسجد آباد ہو کہ مسجد میں اللہ کا نام اور اس کے نبی ﷺ کا نام لیا جائے اور میں آپ سے بہت راضی ہوں۔ آپ اور آپ کی نسلوں کیلئے دن رات دعائیں کرتا ہوں۔ آپ نے موتی مسجد کو متعارف کروایا اور آپ نے موتی مسجد کوبہت زیادہ عالم میں مقبول اورمحبوب کیا۔ اس کی گرانی کو جو کہ انسان کی وجہ سے تھی‘ ختم تھی‘ مجھے آپ سے محبت ہے۔ وہ رو رہا تھا اس کے اشک بہہ رہے تھے۔ میں نے اس کے آنسو صاف کیے اس کو اپنے سینے سے لگایا۔ مسجد کی خدمت نے اسے روحانیت دی‘ نورانیت دی‘ نور دیا‘ برکت دیا اور خیروعافیت دی اور مسجد کی خدمت نے اسے دنیا بھی دی تھی آخرت بھی دی تھی‘ عزت بھی دی تھی شان و شوکت دی۔موتی مسجد کے خدمت سے بہت کچھ ملا: کہنے لگا اس سے پہلے میرے گھرمیں غربت ہی غربت تھی‘ تنگدستی ہی تنگدستی تھی جب سے میں نے موتی مسجد کی خدمت شروع کی میرے گھر میں وسعت ہوگئی اور میرے گھر میں خیریں پھیل گئیں برکتیں پھیل گئیں اور عافیتیں پھیل گئیں۔ پہلے میرے گھر میں بے برکتی اور نحوست ہوتی تھی جب سے میں نے موتی مسجد کی خدمت کی اور کچھ نہ چلا اور صلہ صرف اللہ سے چاہا اور مجھےبہت زیادہ خیروبرکت کے خزانے ملے۔کنویں میں انوکھا جہان: پھر ایک انوکھی بات کہی کہ آپ جس کنویں کا تذکرہ کررہے تھے واقعی اس کنویں میں انوکھا جہان ہے اب تو یہ کنواں بند ہوگیا ہے لیکن کنویں کے اندر روحانی دنیا کے دروازے ہیں‘ پراسراری دنیا کے دروازے ہیں‘ حلاکوتی دنیا کے دروازے ہیں‘ ملاکوتی دنیا کے دروازے ہیں اور زمین کے اندر اللہ کے حکم سے چل رہا۔ واقعی اس کے اندر جہان ہیں۔ کہنے لگا میں بھی بار کئی دروازوں کے اندر گیا ہوں‘ گھوما ہوں اور ان دروازوں سے مجھے بہت کچھ ملا ہے۔ ان کی باتیں سن کر میرا اشتیاق اور بڑھ گیا۔ میں نے مسجد کے قاری صاحب جنہوں نے ختم القرآن کیا انہیں اور کچھ جنات اور موتی مسجد کا خادم ‘ہم وہاں گئے۔ کنواں ویران ہے‘ اس پر مٹی سے آدھا بڑھا ہوا ہے لیکن ہمارے جاتے ہی کنویں کے اندر سے مٹی ہٹی‘ وہاں سیڑھیاں نظر آنا شروع ہوئیں ہم سیڑھیاں اترتے گئے تھوڑی ہی دیر میں اس جگہ پہنچے جہاں اصل پانی تھا۔ اس پانی کے ساتھ قاری صاحب نے دروازہ کھٹکھٹایا ‘اندر سے آواز آئی کون ہے؟قطعہ رحمی کا نقصان: قاری صاحب نے فرمایا موتی مسجد کا قاری ہوں پوچھا گیا تیرے ساتھ کون کون ہے‘ میرا بتایا ساتھ اور جنات تھے‘ ان کا بتایا کہ مسجد کاخادم ہے، آواز آئی آپ سارے جاسکتے ہیں لیکن آپ میں سے فلاں شخص ایک جن تھا‘ اس کو اندر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ قاری صاحب نےپوچھا کہ کیا وجہ؟ فرمایا: یہ وہ شخص ہے جو رشتہ داروں سے ناطے توڑتا ہے‘ ان کو طعنے دیتا ہے‘ ان سے خوشی غمی میں شامل نہیں ہوتا۔ اس کے پاس دولت ہے‘ مال ہے‘ مال و دولت نے اسے صلہ رحمی اور رشتہ داروں سے رابطہ سے جدا کردیا ہے اور یہ بہت دور نکل گیا ہے۔ اس کے رشتہ دار اس کو ملنے آتے ہیں یہ انہیں سیدھے منہ نہیں ملتا۔ یہ ان کےساتھ بہت ٹیڑھے انداز سے ملتا ہے۔ اس نے کبھی بھی اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت نہیں دی‘ ان کیلئے کھانا پینا نہیں کیا۔ اپنے غریب رشتہ داروں کی کبھی مدد نہیں کی یہ ہر پل اپنی دولت کے نشہ میں مست رہا‘ اس جہان میں یہ نہیں جاسکتا۔ رشتہ داروں کی زیادتی بھی ہو تو ان کو برداشت کرو‘ وہ اس جہان میں ضرور جائے گااور جو رشتہ داروں کو توڑے وہ اس جہان میں نہیں جائےگا۔ ہم پریشان ہوئے آخر اس جن کو واپس جانا پڑا لیکن میرے دل میں اچانک خیال آیا میں نے کہا ٹھہرو! تم یہیں کھڑے کھڑے اللہ سے توبہ کرو، معافی مانگ لو کہ آئندہ کیلئے میں ہر رشتے دار کی زیادتی کو معاف کروں اور زیادتی کے باوجود ان ملوں گا‘ ان کی خیرخواہی کروں گا‘ غریب رشتہ داروں کی خبرگیری کروں گا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کروں گا۔آخر دروازہ کھلا اور کھلتے ہی!: اس نے کھڑے کھڑے اللہ سے معافی مانگی۔ پھر میں نے خود دروازہ کھٹکھٹایا آواز آئی کون؟ میں نے اپنا تعارف کروایا، کہا ہم آپ کو جانتے ہیں۔ میں نے کہا اس بندے نے معافی مانگ لی ہے اب وہ اس عیب سے پاک ہے۔ میرا یہ کہنا تھا کہ دروازہ کھلا‘ بس دروازہ کھلتے ہی اندر سے حسین ٹھنڈی ہوائیں آئیں۔ قارئین میں آپ کو نہیں بتاسکتا کہ وہ ٹھنڈی ہوائیں کیا تھیں وہ ٹھنڈی فضائیں کیا تھیں جو آپ کے کسی بڑے بڑے پہاڑی خوشگوار اور ٹھنڈے سے ٹھنڈےعلاقہ میں نہ دیکھنے کو ملیں‘ نہ سننے کو ملیں۔ وہ ہوائیں بھی تھیں‘ وہ خوشبو بھی تھی‘ وہ عطر بھی تھے‘ وہ تسکین بھی تھی‘ وہ روح بھی تھی‘ وہ روحانیت بھی تھی۔ ہم سیڑھیاں نیچے اترتے گئے اترتے اترتے ہمیں کوئی تکان محسوس نہ ہوئی‘ اس ہوا نے ہماری زندگی میں ایک نئی زندگی جھونک دی تھی ہم اس زندگی کو لیے وہاں پہنچے۔ ہرطرف خوشگوار فضائیں‘ خوشگوار چشمے‘ موتی اور پھول میوے اور پھل ہم پھرتے رہے ہمیں دنیا بھول گئی‘ زمین بھول گئی‘ زمین کے غم بھول گئے‘میں نے وہاں کے چشموں سے پانی پیا‘ وہاں کے لذیذ سے لذیذ تر پھل گئے اور حیرت انگیز طور پر نعمتیں کھائیں۔پتھر کے اندر خوشگوار خوش ذائقہ مغز: قاری صاحب نے چشمے کے ساتھ پڑے پتھر کو اٹھایا۔ فرمانے لگے یہ پتھر ایسے جیسے دنیا میں ہمارا بادام ہے۔ میں حیران ہوایہ پتھر؟ فرمانے لگے آپ اس کو تھوڑی سی کسی دوسرے پتھر سے چوٹ دیں میں چوٹ دی تو اس کے اندر سے سفید مغز نکلا جو آسانی سے نکل آیا۔ چھلکا میں نے پھینک دیا وہ کھایا‘ وہ بادام تھا‘ اخروٹ‘ پستہ تھا‘ وہ مکھن تھا وہ دودھ تھا وہ بالائی تھی‘کس چیز کا ذائقہ بیان کروں۔ اس کاذائقہ انوکھا تھا میں نے اور پتھر اٹھایا اس کو چوٹ دی اس میں سے بھی ایک ایسا خوشگوار مغز نکلا۔ کھانے کی نعمتیں تھیں‘ روح تھی‘ روحانیت تھی۔قطعہ رحمی کرنے والے میں بدبو: ایک چیز مجھے اس جہان کے سارے سفر میں چوٹیں ماررہی تھی اور وہ یہ تھی کہ آخر جو لوگ قطعہ رحمی کرتے ہیں ان کو کیوں وہاں جانے نہیں دیا جاتا؟ میں یہ سوچ رہا تھا موتی مسجد کے جن قاری صاحب نے شاید میری سوچ کو پڑھ لیا۔ مجھ سے فرمانے لگے: اصل میں جو شخص دوسروں کے نفرت رکھتا ہے‘ کینہ رکھتا ہے‘ بغض رکھتا ہے یا اس کے دل میں تکبر ہوتا ہے‘ اس کے دماغ میں غرور ہوتا ہے‘ اس کی چال میں غرور ہوتا ہے یا وہ اپنوں کو اپنے سے کمتر سمجھتا ہے‘ اپنے رشتہ داروں کوقریب نہیں آنے دیتا یا ان کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا یا رشتہ داروں کی تھوڑی سی کمی یا کوتاہی کو اپنے لیے بہت بڑا پہاڑ بنالیتا ہے اس شخص کےدل کے اندر اصل میں ایک بدبو بڑھ جاتی ہے اور اس کا اس کو پتہ نہیں چلتا۔ نہ وہ بدبو انسان سونگھ سکتا ہے اور جنات بھی وہ بدبو شاید کم سونگھتے ہوں لیکن یہ روحانی مخلوق فرشتے اور دوسرے جہانوں کی مخلوق یہ بدبو بھانپ لیتی ہے کیونکہ ان کا عالم خوشبودار ہے اور ان کا عالم بہت معطر ہے اس لیے وہاں وہ شخص جانا نہیں چاہتا جس کے دل میں بغض کینہ نفرت نہ ہو جو اپنے امیر‘غریب‘ فقیر ہر قسم کے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے باوجود ان کی زیادتیوں کیلئے بھی یہ جہاں ان لوگوں کیلئے ہے۔ ہم بہت دیر تک یہ جہان پھرتے رہے آخر کار میرے جی میں آیا کہ ہمیں واپس جانا چاہیے ہم نے واپس جانے کیلئے واپس جانے کا ارادہ کیا۔ وہی سیڑھیاں چرھتے ہم واپس آئے اور کنواں واپس اسی طرح بند ہوگیا۔ اس کے اندر سیڑھیوں کا نشان تک ختم ہوگیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں